مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حجت الاسلام آغا علی کا تعلق سادات کے موسوی سلسلے سے تھا۔ وہ 1928 میں بلتستان کے گاؤں ڈورو میں ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید حسن موسوی اور دادا بھی عالم دین تھے۔ جب وہ چار سال کے تھے تو اپنے والد کے ساتھ کشمیر اور ہندوستان کے راستے ایران گئے اور قم میں حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے جوار میں چھے سال تک کسب فیض کیا۔ بعد از آں دس سال کی عمر میں نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے حرم مبارک کے جوار میں سکونت اختیار کی اور وہاں سترہ سال تک اسلامی علوم سے فیض یاب ہوتے رہے۔
تعلیم
آپ نے نجف اشرف کے برجستہ علمائے دین سے کسب فیض کیا اور شیخ محمد تقی عرب، شہید محراب آیت اللہ مدنی، مدرس افغانی اور شیخ محمد ترکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان کے علم و فضل سے مستفید ہوئے۔
اسی طرح انہوں نے آیت اللہ العظمی سید محسن حکیم، آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ العظمی اشراقی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔
نجف اشرف میں تحصیل علم کے دوران آپ حجۃ الاسلام و المسلمین شہید نواب صفوی کے روم میٹ تھے۔ نیز اس دور میں آپ نے خالصہ الحساب کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف کی۔
وطن واپسی
آپ نجف اشرف میں سترہ سال رہنے کے بعد 1954 میں اپنے آبائی شہر واپس آئے اور وہاں مذہبی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ آپ اپنے والد کے ساتھ لاہور شہر کے موچی دروازہ میں تبلیغ اہل بیت (ع) میں مصروف رہے اور آخر تک اس خدمت کو جاری رکھا۔ پاکستان واپس آنے کے بعد آپ آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے اور تب سے لوگ انہیں اسی نام سے جانتے ہیں۔ وہ فن خطابت میں یدطولی رکھتے تھے اور آیات و احادیث کے علاوہ علامہ اقبال کے اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔
یہی چیز نوجوانوں کی ان کی تقریروں میں دلچسپی کا باعث بنی۔ انہوں نے پاکستان کی مساجد میں نوجوانوں کے لیے درس اخلاق کو عام کیا۔
سیاسی سرگرمیاں
یہ سرگرم شیعہ عالم دین ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ وہ تحریک جعفریہ کی سپریم کونسل کے رکن تھے اور پاکستان کے شیعوں کے دوسرے بے مثال قائد شہید حجۃ الاسلام و المسلمین سید عارف حسین الحسینی کے دور میں اس جماعت کے نائب صدر تھے اور 1986 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
نیز، انہوں نے پاکستان میں سید عارف حسین الحسینی کی قیادت کو متعارف کرانے میں بھی بہت بڑا کردار ادا کیا اور انہیں شہید کے قریبی ساتھیوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔
آغاعلی موسوی مرحوم عالمی یوم القدس کی تشہیر اور پاکستان میں عالمی استکبار مخالف ریلیوں کی سرپرستی اور حمایت کرتے تھے۔
آپ نے آیت اللہ سید محسن حکیم کی رحلت کے بعد امام خمینی کی مرجعیت کو متعارف کرانے کے لیے حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی کے ساتھ مل کر امام خمینی کی توضیح المسائل کا اردو میں ترجمہ کیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں پہنچایا۔
انہوں نے خالص اسلامی ثقافت کے فروغ کے لیے حبل المتین کے نام سے ایک مجلہ بھی شائع کیا۔
آپ نے 1974 میں انجمن علمائے امامیہ بلتستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور اس کے سربراہ کی حیثیت سے وہاں کے شیعہ علماء کو متحد کیا۔ انہوں نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تشکیل اور قیام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
سماجی اور ثقافتی خدمات
حجت الاسلام آغا علی موسوی نے علمی اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ بہت سی سماجی خدمات بھی انجام دیں۔
آپ نے مدرسہ علوم اسلامی کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی اور وہاں بطور مدیر اور استاد کے خدمات انجام دیں۔
آپ کی کوششوں سے حسین آباد کے حسینی مشن اور لاہور کے ادارہ درس و عمل کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ کچھ فلاحی ادارے جیسے کہ آل عمران انسٹی ٹیوٹ، امام بارگاہوں، مساجد، مدارس اور سڑکوں کی تعمیر میں حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی کا ہاتھ بٹایا۔
لاہور میں مدرسہ المنتظر، مدرسہ حیدریہ، سیالکوٹ شہر میں مدرسہ قرآن و عترت، فیصل آباد میں مدرسہ علوم اسلامی اور اسی نام کے مدرسے کی لاہور شہر میں تاسیس آپ کی بے مثال خدمات میں شمار ہوتی ہیں۔
بلتستان میں انہوں نے محکمہ شرعیہ کا احیاء کیا تاکہ لوگ سرکاری عدالتوں کے بجائے اس شرعی ادارے کی طرف رجوع کریں اور اسی وجہ سے انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے نشان خدمت سے نوازا گیا۔
شیعہ سیاسی اور مذہبی شخصیات سے اچھے تعلقات
آغا علی موسوی مرحوم کے پاکستان کی شیعہ مذہبی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ علمی مباحثوں اور سیاسی میدانوں میں انہوں نے حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی، مولانا اظہر حسین زیدی، سید محمد دہلوی، حافظ کفایت حسین، مفتی جعفر حسین، شہید حسینی، شیخ محسن علی نجفی اور سید ساجد علی نقوی جیسی برجستہ شخصیات کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھے اور تعاون کیا۔
آپ اتحاد بین المسلمین کے میدان میں بھی سرگرم تھے اور سنی علماء جیسے جماعت اسلامی اہلسنت کے سربراہ ابوالاعلی مودودی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا ابوالحسنات، مولانا عبدالستار خان نیازی۔ قاضی حسین احمد، اور مولانا عبدالقادر آزاد وغیرہ سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔
ذاتی اور اخلاقی خصوصیات
حجۃ الاسلام آغاعلی موسوی نماز کو اول وقت میں پڑھنے کو اہمیت دیتے تھے اور شب زندہ دار تھے۔ آپ بہت خوش مزاج اور نکتہ سنج تھے اور بہت سے دینی اور قومی امور نہایت ظرافت اور خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔
1986 میں جب ایران کے اس وقت کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کا دورہ کیا تو ضیاء الحق (اس وقت کے صدر پاکستان) سے ان کی ملاقات کے وقت حجت الاسلام موسوی بھی موجود تھے۔
اس ملاقات میں آپ نے ہاتھ کی مشکل کا بہانہ بنا کر ضیاءالحق سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا۔ جب آیت اللہ خامنہ ای نے اس اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا تو آپ نے جواب میں کہا: میں ایسے شخص سے مصافحہ نہیں کر سکتا جس کے ہاتھ کوئٹہ کے شہداء کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور ہمارے بھائی اس کی جیلوں میں قید ہیں۔" آپ کے اس زیرکانہ اقدام کی وجہ سے آیت اللہ خامنہ ای کی سفارش پر اسیروں کو رہا کیا گیا۔
سفر آخرت
آخرکار زندگی بھر کی علمی، ثقافتی اور سیاسی جدوجہد کے بعد یہ مجاہد عالم دین 84 برس کی عمر میں 30 جولائی 2012ء بمطابق 10 رمضان المبارک 1433 ہجری کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو حسین آباد (سکردو بلتستان) کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کا تبصرہ